فقیر بستی میں تھا
وقت کی مثال ایک سمندر کی سی ہے جس کی تلاطم خیز لہریں زمین کے ہر اک کونے کا طواف کرتی ہیں اور ذرد ریت بھرے ساحلوں پر طالع برگشتہ کے آہ بکا کی فریاد لئے ہر روز کبھی بہتی ہواؤں کا بہانہ بنائے تو کبھی مدو جزر کے حصار میں صبح شام تپتی ریت کے ان ذرات پر اپنا سر پٹختی دکھائی دیتی ہیں اسی آہ و فغاں کے نتیجے میں یہ موجیں کچھ لعل سمندر کے پیٹ سے نکال کر زمین کی جھولی میں ڈال دیتی ہیں وہ لعل جن کی ادھوری بہار کو زمین کی خزاں وقت سے پہلے ہی پامال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی ، وہ لعل جو ماں کے پیٹ سے شمع فروزاں کی مانند چمکتے ہوئے آتے ہیں مگر شب و روز کے حوادث ان پر گرد و غبار کی ایسی ترشح کرتے ہیں کہ ان کی یہ چمک ہمیشہ کے لئے ماند پڑ جاتی ہے، بے شمار ماؤں نے ایسے ہیروں کو جنم دیا جنھیں ضمیر اجاگر کرنے کے واسطے لوگوں کے سینوں پر دستک دینا تھی، جنھیں زندگی کے اوراق پر شعور کی نقش آرائی کرنا تھی جنھوں نے ریشم کی تاروں کو ملا کر ایسی طلسمی چادر بننا تھی جس میں اس عالم کو لپیٹ کر اسے آب حیات کے چند گھونٹ پلا کے ہمیشہ کے لئے امر کر سکیں
حیف صد حیف! کہ وہ تمام لعل زمانے کی انا، طمع، لالچ اور حرص کی بھینٹ چڑھ گئے ۔ ایسے ہی ایک لعل اور نجیب الطرفین شخص مولانا محمد حسین آزاد تھے وہی آزاد جنھیں اردو نثر کا سلطان کہا جاتا ہے، وہی آزاد جن کی جھولی میں شمس العلماء کا خطاب ڈال دیا گیا وہی آزادجو اردو کو آب حیات جیسا جام دے گئے، وہی آزاد جو دلی کے اجڑنے کے بعد لاہور کی گلیوں کی خاک چھانتے رہے، وہی آزاد جنھوں نے عالم وارفتگی میں بھی علم کی غرض سے کوئی کاخ و کو نہ چھوڑا ، وہی آزاد جس نے جذب و مستی کے عالم میں بھی ذوق کے کلام کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ آزاد کی شخصیت اس قدر پیچیدہ انمول اور دلچسپ ہے کہ اس پر ہزاروں باب لکھے جا سکتے ہیں
آزاد صاحب کی زندگی پر حال ہی میں مشہور زمانہ شاعر ومصنف علی اکبر ناطق کی کتاب ” فقیر بستی میں تھا” شایع ہوئی ہے یہ کتاب آزاد کی زندگی کا احاطہ کرنے والی بہترین کتاب ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ آزاد کی زندگی چند صفحوں پر کسی صورت بیان نہیں کی جا سکتی، ناطق نے ان کی زندگی کے چیدہ چیدہ واقعات کو بڑے سلیقے سے اک تسلسل اور ترتیب میں بیان کیا ہے۔ ناطق نے آزاد کی زندگی کے ہر پہلو پر تصورات کے قمقموں سے روشنی ڈالنے کی حتی المقدور سعی کی ہے۔ بے شک کتاب آزاد کے غیر معمولی ہونے کا بڑا ثبوت پیش کرتی ہے آزاد کی عظمت کے بارے آغا محمد باقر نبیرہ آزاد لکھتے ہیں
"سن 1887 میں مولانا آزاد کو ملکہ وکٹوریہ کی جوبلی کے موقع پر تعلیمی اور ادبی خدمات کے صلے میں شمس العلماء ک خطاب ملا”
جو لوگ آزاد کی زندگی سے بالکل ناواقف ہیں ان کے لئے یہ کتاب انمول خزانہ ہے۔ کتاب میں آزاد کا تذکرہ جس انداز میں کیا گیا ہے ملاحظہ ہو ” کسے پتا تھا اس زمانہ تغیر میں ایسا نابغہ پیدا ہو چکا ہے جس کے لفظوں نے آب حیات کے کٹورے پی رکھے ہیں، جو اپنے نثری قطعوں سے عریض مشارق و مغارب میں نثر کے گل بوٹے پھیلائے گا اور ان کی شاخیں طویل ہوں گی پھلوں سے لدی ہوں گی اور پھل ایسے شیریں ہوں گے کہ ان میں ترشی کا احساس تک نہ ہو گا۔ یہ معجز بیان، نثر اردو کا سلطان اور صدیوں سے آب و قلم سے حکمرانی کرنے والا شمس العلماء محمد حسین آزاد ہی تو ہے”
قصہ ناطق کی اس شاہکار کتاب کا کچھ یوں ہے کہ ناطق نے ابتدا میں چودہ دروازوں سے گھرے دلی اور س میں موجود لال قلعہ کے در و بام کو شگفتہ پیرائے میں قلم بند کیا ہے۔ کتاب میں آزاد کی زندگی کے احوال سے قبل ان کے شفیق والد آغا محمد باقر کا کچھ تذکرہ کیا گیا ہے جس میں ان کی شہادت کا واقعہ درج ہے ۔ والد کی رحلت کے بعد آزاد کے اسفار کا دور شروع ہوتا ہے کہ کیسے آزاد برہنہ پا دہلی سے لکھنئو پہنچے۔ وہاں پر ہی ان کی ملاقات میر تقی میر کے پسر میر عسکری عرف میر کلو سے ہوئی۔ وہاں کچھ ماہ قیام کے بعد مدراس اور پھر بمبئی پہنچے۔ رزق کی جستجو میں لدھیانہ آئے بعد ازاں پھوپھی زاد بھائی مرزا محمد علی کے بلانے پر سیالکوٹ بعد ازاں لاہور منتقل ہو گئے یہاں اخبار ” اتالیق پنجاب” سے منسلک ہوئے، کچھ ماہ بعد اخبار کی نائب صدارت چھوڑ کر گورنمنٹ کالج لاہور سے وابستہ ہو گئے۔ گورنمنٹ کالج ان دنوں انارکلی میں ہوا کرتا تھا، اسی دوران ڈاکٹر لائٹنر (پرنسپل گورنمنٹ کالج) کی ریشہ دوانیاں اپنے عروج پر تھیں لہذا آزاد نے سفر ایران کی ٹھان لی۔ ایران سے واپسی کے بعد بقیہ زندگی اکبری منڈی میں موجود گھر میں گزاری جس کی باقیات آج بھی موجود ہیں۔
آزاد نے اپنے آخری دس برس انتہائی وارفتگی کی حالت میں گزارے۔ 1910 میں یہ لعل جنون کے اسفار طے کرتا ہوا خالق حقیقی سے جا ملا۔ ان کا مزار کربلا گامے شاہ میں موجود ہے۔ ناطق کی اس کتاب کو پڑھ کر آزاد کی زندگی کا ہر اہم واقعہ قاری کی نظروں کے سامنے چھا جاتا ہے۔ انھوں نے جو خدمات زبان اور ادب کی کیں ان کو اردو زبان کبھی فراموش نہ کر سکے گی۔ یہ آج کے دور کا بڑا المیہ ہے کہ لوگوں کے پاس فضول بیٹھنے اور گپ لگانے کا وقت تو ہے مگر ایسی شاہکار کتب کا مطالعہ کرنے کو ایک پل بھی نہیں ۔ خدا جانے کہ ایسے کتنے ہی لعل فقیروں کا لبادہ اوڑھے اس دنیا سے کنارہ کر گئے اور آج ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے والا کوئی نہیں
یہ بستیاں اجڑ کے کہیں بستیاں بھی ہیں